16 اکتوبر 2025 - 02:27
طالبان - پاکستان تنازع کی بنیاد کیا ہے / موجودہ کشیدگی کے فوری حل کی ضرورت

کابل میں طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنے کے لئے چار سالہ صبر آزما سفارتی کوششوں کے بعد، پاکستان گویا نیا تعزیری طریقہ اپنا کر، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے طاقت کے استعمال پر آمادہ ہؤا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || افغانستان اور پاکستان میں طالبان حکومت کے درمیان مسلح تصادم سرحدی جھڑپوں اور نسبتاً بھاری فضائی حملوں تک پھیل گیا ہے، اس کی جڑیں فوری سیکورٹی خدشات اور گہرے تاریخی، نسلی اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کے پیچیدہ آمیزے سے جڑی ہوئی ہیں۔ تنازع کے مرکز میں پاکستان کے الزامات ہیں کہ طالبان باغی گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، گوکہ کابل اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

تنازع کی بنیادی وجوہات

تحریک طالبان پاکستان (TTP) کا کردار:

تنازعے کا فوری محرک TTP ہے۔ پاکستان، افغانستان میں طالبان حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ وہ TTP کو پناہ اور حمایت فراہم کر رہی ہے، جو پاکستان میں اپنے حملے افغانستان سے ہی منصوبہ بند اور شروع کرتی ہے۔ طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

تاریخی رشتے میں دراڑ:

پاکستان کی خفیہ ایجنسی (ISI) نے ماضی میں طالبان کو عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم، 2021ء میں افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد، طالبان کا TTP کے خلاف کارروائی سے انکار کو پاکستان "ایک فریب" قرار دیتا ہے، جس نے فریقین کے درمیان پرانے تعلق کو ختم کر دیا ہے، جس میں پاکستان سرپرست تھا اور طالبان حکومت اس کی پراکسی تھی۔

سرحدی تنازعہ (ڈیورنڈ لائن):

سنہ 1893ء میں کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کو افغانستان نے کبھی بھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس سرحد کے دونوں اطراف میں تقریباً 40 ملین پشتون آباد ہیں، اور طالبان کا قومی و نسلی تشخص اس سرحد کو مصنوعی قرار دیتا ہے، جو تناؤ میں اضافے کا باعث ہے ۔

علاقائی سیاست (ہندوستان کا کردار):

طالبان کے ہندوستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات (جیسے ان کے وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا چھ روزہ دورہ) پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی علاقائی امور کو اپنے دیرینہ حریف ہندوستان کے تناظر میں دیکھتا ہے، جس سے باہمی اعتماد میں کمی آ رہی ہے ۔

حالیہ تصادم اور جنگ بندی

حالیہ جھڑپیں:

اکتوبر 2025ء میں ہونے والی حالیہ شدید سرحدی جھڑپوں میں، پاکستان نے 23 فوجی ہلاکتیں بتائیں جبکہ ان کے مطابق 200 سے زیادہ طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ طالبان نے اپنے 9 جنگجوؤں کی ہلاکت تسلیم کی۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی علاقوں بشمول کابل اور قندھار میں ہوائی حملے بھی کیے ہیں۔

48 گھنٹے کی جنگ بندی:

مورخہ 15 اکتوبر 2025ء کو، دونوں فریقوں کے درمیان 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہؤا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی افغان طالبان کی درخواست پر ہوئی ہے، اس جنگ بندی کا مقصد گفت و شنید کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کرنا ہے ۔

فریقین کی طاقتیں اور کمزوریاں

مندرجہ ذیل جدول پاکستان اور طالبان کی اہم طاقتوں اور چیلنجوں کو واضح کرتا ہے:

پاکستان اور افغانستان کی طاقت کا موازنہ

پاکستان کی صلاحیتیں

• مکمل فوجی برتری (توپ خانہ، ٹینک، جنگی جہاز)

• اہم سرحدی گذرگاہوں (جیسے تورخم، چمن) پر کنٹرول کا اقتصادی لیورج

• افغانستان میں ISI کا گہرا معلوماتی نیٹ ورک

طالبان کی صلاحیتیں:

• پہاڑی اور قبائلی علاقوں میں معلوماتی اور جغرافیائی برتری

• مقامی آبادی میں اثر و رسوخ اور نقل و حرکت کی صلاحیت

پاکستان کی کمزوریاں:

• طالبان کی جغرافیائی برتری پاکستان کی فوجی برتری کو غیر مؤثر بنا سکتی ہے

• وسیع پیمانے پر کارروائی سے پاکستان کے اندر عدم استحکام پھیلنے کا خدشہ ہے

• "افغان طالبان" (حکومت) اور "تحریک طالبان پاکستان" (دہشت گرد) کے ساتھ اسٹریٹجک دوہرے پن کا شکار ہونا

افغان طالبان کی کمزوریاں:

• پاکستان کے مقابلے میں کم تربیت یافتہ اور ہلکے اسلحہ سے لیس فوج

TTP کے خلاف کارروائی سے طالبان کے اندرونی اتحاد میں دراڑ پڑنے کا خطرہ

• بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نہ ہونا

مستقبل کے ممکنہ امکانات اور خطرات

طالبان پر دباؤ:

طالبان ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ TTP کے خلاف کارروائی سے ان کے اندر ہمدرد رکھنے والے جنگجو ناراض ہو سکتے ہیں، جبکہ اسے نظر انداز کرنے سے پاکستان کے ساتھ تصادم کا امکان بڑھ جائے گا۔

پاکستان کے لئے سلامتی کا معمہ:

موجودہ تصادم کے نتیجے میں پاکستان کے اندر TTP کے انتقامی حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے وسیع تر انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

غلط اندازوں اور بے جا تخمینوں کا خطرہ:

دونوں طرف گہری بداعتمادی کی فضا قائم ہے اور بحران کو سنبھالنے کے مؤثر طریقے موجود نہیں ہیں۔ اس سے چھوٹی جھڑپیں بڑے فوجی تصادم میں بدل سکتی ہیں۔

علاقائی پریشانی:

ایران اور قطر جیسے ممالک پہلے ہی پُرامن مذاکرات کی اپیل کر چکے ہیں، کیونکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان استحکام پورے خطے کی سلامتی کے لئے اہم ہے۔

پاکستان کی نئی فوجی حکمت عملی:

حالیہ حملے پاکستان کی حکمت عملی میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں:

تعزیری نقطہ نظر:

چار سال کے ناکام سفارتی اقدامات کے بعد، پاکستان نے TTP کے خلاف افغانستان میں براہ راست فوجی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کا نیا فوجی ڈاکٹرائن:

پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان سے ہونے والے ہر دہشت گرد حملے کا جواب سرحد پار "فیصلہ کن جوابی کاروائی" کی صورت میں ہوگا، جس میں TTP کے اعلیٰ رہنما بھی نشانہ بنائے جا سکتے ہیں۔

داخلی و خارجی پیغام:

یہ اقدام نہ صرف طالبان کے لئے بلکہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ قومی سلامتی کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے گی۔

نتیجہ:

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان موجودہ تنازع محض ایک سرحدی جھڑپ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ کشمکش ہے جس کی جڑیں تاریخی اختلافات، نسلی وابستگیوں، اور خطے میں بدلتی ہوئی حکمت عملیوں میں پیوست ہیں۔ اگرچہ فریقین کے رویے سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ مکمل جنگ کے خواہش مند ہیں، لیکن گہری بد اعتمادی، اندرونی دباؤ اور کشیدگی علاقائی صورت حال کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔ آنے والے مہینے یہ طے کریں گے کہ دونوں حکومتیں فوجی تصادم کو بڑھانے کے بجائے "حکمت عملی کی پابندی" کو ترجیح دیتی ہیں یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha